۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
ملائشیا

حوزہ/ محمد فیصل اور ٹین بینگ ہوئی کے مقالے کے مطابق اپریل 2012ء میں ریاست سیلانگر میں شیعوں کے خلاف خطبہ تقسیم کیا گیا جس کے مطابق شیعہ قرآن کے منکر ہیں اور ان کا قرآن الگ ہے۔ نومبر 2013ء میں کوالالمپور اور پتراجیا میں جمعے کے ایک خطبے بعنوان ”شیعہ وائرس“، میں شیعوں کو لواطت کا عادی قرار دیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ ان کی ”زہریلی تعلیمات“ کو روکنا جہاد ہے۔

تحریر: سید اسد عباس

حوزہ نیوز ایجنسی |ملائشیا جنوب مشرقی ایشیا کا ایک اہم ملک ہے جہاں تیرہ چھوٹی ریاستیں اور تین وفاقی علاقے ہیں، ہر ریاست کا الگ حکمران ہے۔ نو،وراثتی ریاستیں ملک کا بادشاہ چنتی ہیں، چار ریاستیں اس چناؤ میں شریک نہیں ہوتیں اور ریاست کا بادشاہ پانچ برس کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ اس ملک میں وفاقی آئینی بادشاہت ہے۔ حکومتی نظام پارلیمانی طرز کا ہے، بادشاہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اور حکومت کا سربراہ وزیراعظم ہوتا ہے۔ قانون سازی کے لیے دو ایوان ہیں، ایوان نمائندگان اور ایوان بالا۔ ایوان نمائندگان کا تقرر پانچ برسوں کے لیے ہوتا ہے جبکہ ایوان بالا کے اراکین جو اپنی اپنی ریاستوں کی نمائندگی کرتے ہیں تین برسوں کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔

تقریبا تین لاکھ تیس ہزار آٹھ سو تین مربع کلومیٹر رقبہ پر محیط اس ملک کو جنوبی بحیرہ چین دو برابر حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک حصہ جزیرہ نما مغربی ملائیشیا یا ”ملایا“ کہلاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ مشرقی ملائیشیا یا ”ملائشین برمیو“ کہلاتا ہے۔ ملائشیا کی بری سرحدیں تھائی لینڈ، انڈونیشیا اوربرونائی کے ساتھ ملتی ہیں جبکہ بحری سرحدوں میں یہ ملک سنگاپور، ویت نام اور فلپائین کے جوار میں واقع ہے۔ کوالالامپور، ملائیشیا کا دارالحکومت ہے۔ ملائیشین زبان یہاں کی سرکاری و قومی زبان ہے۔ مقامی لوگوں میں ملائشین کے علاوہ چینی اور ہندوستانیوں کی بھی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو کئی نسلوں سے وہاں آباد ہیں۔ 2022ء کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی لگ بھگ تین کروڑ چوبیس لاکھ نفوس پرمشتمل ہے۔

لفظ ”ملائشیا“ دراصل ”تامل“زبان کے لفظ ”ملاؤ“ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب پہاڑوں میں گھرا ہوا شہر ہے۔ فرانسیسی بحری سیاحوں نے اس علاقے کو ملائشیا کہنا شروع کیا جو اب اس خطے کی پہچان بن چکا ہے۔ اس خطے پر انسانی تہذیب کے آثار چالیس ہزار سال قدیم ہیں۔ بعد کے ادوار میں چینی اور ہندوستانی تاجروں نے اس علاقے میں آنا شروع کیا۔ پہلا بادشاہ جس نے اسلام قبول کیا سلطان سکندر شاہ تھا جس کا اصل نام "امسوارا" تھا۔ تب سے ملائشیا میں اسلام کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ ملائیشیا پرتگال، ولندیزوں ،ایسٹ انڈیا کمپنی اور جاپان کے بھی زیر تسلط رہا۔ 1957ء میں ملایا فیڈریشن نے تاج برطانیہ سے آزادی حاصل کی۔ 16 ستمبر 1963ء کو ملایا فیڈریشن اور سنگاپور نے کچھ اور ریاستوں کو ملا کر ”ریاست ملائشیا“ کی بنیاد رکھی لیکن دو سال سے بھی کم عرصے میں سنگاپور الگ ہوگیا اور باقی ماندہ ریاستیں آج کے ملائشیا کی شکل میں معرض وجود میں آئیں۔

برصغیر کی مانند ملائشین قانون میں زیادہ تر برطانوی نظائرکو پیش نظر رکھا گیا ہے تاہم ملک میں شرعی عدالتیں بھی ایک متوازی نظام کی حیثیت سے کام کررہی ہیں جہاں فقہ شافعی کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں اور مسلمانوں کے مقدمات انہی شرعی عدالتوں میں ہی پیش ہوتے ہیں۔ ملائشیا ایک کثیر القومی، کثیر الثقافتی ملک ہے، مقامی ملایا افراد جن کو بومی پتیرا کہا جاتا ہے کہ آبادی 69.7 فیصد ہے جن میں ملایا کی شرح تقریبا 57 فیصد سے زیادہ ہے، 11 فیصد آبادی ملائشیا کے نواحی علاقوں سے ہے جو خود کو ملائشیا کے ہی باشندے گردانتے ہیں لیکن ان کی اکثریت غیر مسلم ہے۔ تجارت پر زیادہ تر چینی قبائل کا قبضہ ہے جن کی آبادی تقریبا 23 فیصد ہے اور تامل نسل کے ہندوستانی بھی 6.6 فیصد ہیں۔ کل آبادی میں مسلمانوں کی شرح 63.5 فیصد ہے، تقریبا 18 فیصد بدھ مت کے ماننے والے ہیں، 9 فیصد مسیحی برادی کے لوگ ہیں اور 6 فیصد ہندو بستے ہیں اور ایک بہت قلیل تعداد چینی مذاہب، تاؤازم، کنفیوشش اور اجداد پرستوں کی بھی ہے۔ تاہم حیرت کی بات ہے کہ اتنے کثیر القومی اور کثیر الثقافتی معاشرے میں مسلکی تنگ نظری اپنے عروج پر ہے۔

محمد فیصل موسی اور ٹین بینگ ہوئی کے مقالے State-backed discrimination against Shia Muslims in Malaysia جو کہ 2017ء میں شائع ہوا کے مطابق ملائشیا کی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار میں اس ملک میں شیعوں کی آبادی دو لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ ان میں ملائشیا کے شہریوں کے علاوہ وہاں عارضی طور پر آنے والے ہندوستان، پاکستان، ایران اور برما وغیرہ سے تعلق رکھنے والے شیعہ بھی شامل ہیں۔ محمد فیصل موسیٰ اور ان کی ساتھی مولفہ لکھتے ہیں کہ ملائیشیا کی نیشنل فتویٰ کونسل جو وزارت مذہبی امور کے تحت کام کرتی ہے نے 1996ء میں ایک کانفرنس منعقد کی جس میں فتوی دیا گیا کہ ملک کا رسمی مسلک اہلسنت و الجماعت ہے اور فقہ جعفریہ اور فقہ زیدیہ گمراہ مسالک ہیں۔

محمد لکھتے ہیں کہ فتوی کونسل کی 1996ء کی کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ ملک کے مسلمان شہری عقائد، فقہی مسائل اور اخلاقیات میں صرف مسلکِ اہلسنت و الجماعت کی پیروی کر سکتے ہیں۔ اس فیصلے کو آئین کا حصہ بنانے اور تمام وفاقی و ریاستی قوانین کو اس کے مطابق بدلنے کا اعلان کیا گیا۔ سوم یہ کہ اہل سنت و الجماعت کے مسلک کے علاوہ کسی اور مسلک کی تعلیمات کا پرچار غیر قانونی قرار دیا گیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملائشیا میں فتویٰ دینے کا اختیار صرف فتوی کونسل کو حاصل ہے جو وفاقی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ فتوی کونسل کے فتاوی کی مخالفت پر تین سال قید یا جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ تیرہ میں سے دس ریاستوں نے اس فتوی کو فوری طور پر نافذ کیا اور کیدا ریاست نے اس فتوی کو 2013ء میں نافذ کیا۔

محمد فیصل موسیٰ ملائشیا یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو ہیں اور فیصل تہرانی کے قلمی نام سے متعدد ناول تحریر کر چکے ہیں ان کی کتابیں ملائشیا میں شیعت کی ترویج کے جرم میں بین ہیں۔ ان کی ساتھی مولفہ ٹین بینگ ہوئی انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔ یہ مولفین اپنے مقالے میں تحریر کرتے ہیں کہ ملائشیا میں مہاتیر محمد کے پہلے دور اقتدار (1981ء تا 2003ء) میں سعودی عرب کی مدد سے سنی اسلام کی تنگ نظر تفسیر کو سرکاری سرپرستی میں رواج ملنا شروع ہوا۔ ابتدا میں اسلام کے ظواہر و رسومات پر زیادہ زور دیا گیا۔ اسلامی بنکاری متعارف کرائی گئی۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر اسلامی پروگراموں کا دورانیہ بڑھایا گیا اور اسلامی آرٹ کے فروغ پر پیسہ خرچ کیا گیا۔

1990ء کی دہائی میں مزید سخت گیر تعلیمات کی تبلیغ کا آغاز ہوا۔ شریعت کے نام پر سیاسی مقاصد رکھنے والی مذہبی استبداد پر مبنی تشریح کو رائج کیا جانے لگا تاکہ ریاست میں چھوٹی ریاستوں کی نسبت وفاق کو زیادہ طاقت دی جا سکے۔ اس عمل کو ”شریعہ لابی“ کی حمایت حاصل تھی، جس میں سرکاری اور غیر سرکاری عناصر شامل ہیں اور ان کا بنیادی مقصد قوم کی ذاتی اور اجتماعی زندگی کو اسلام کے زیر سایہ لانا تھا۔ مذہب کو سیاست سے ملا کرانہوں نے مطالبہ کیا کہ اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا جائے اور باقی مذاہب کو اس کے تابع قرار دیا جائے، شرعی قوانین کا نفاذ کیا جائے اور جنسی و اخلاقی معیارات کو اسلام کا پابند بنایا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ”شریعہ لابی“ شیعوں کے علاوہ لبرل مسلمانوں، خواجہ سراؤں، ہم جنس پسندوں اور دوسرے نسبتاً غیر معروف مسلمان فرقوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

مذکورہ بالا مقالے کے مطابق ملائشیا حکومت نے شیعہ شہریوں اور دوسری اقلیتوں کو متنبہ کیا ہے کہ ان کے خلاف غداری ایکٹ 1948، امن عامہ ایکٹ 1958 اور ایمرجنسی آرڈیننس 1960 کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 1960ء آئی ایس اے ایکٹ کے تحت ملزم کو بغیر وارنٹ ساٹھ روز تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے اور اس حراست کو دو برس تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ شیعہ مسلک کو دبانے کے لیے ملائشیا کی مختلف ریاستوں میں شیعہ اجتماعات پر ریڈز کے علاوہ سرکاری خطبہ جمعہ کے فورم کو بھی استعمال میں لایا جاتا ہے جس میں عوام کو شیعہ مسلک سے ہوشیار رہنے کا کہا جاتا ہے۔

محمد فیصل اور ٹین بینگ ہوئی کے مقالے کے مطابق اپریل 2012ء میں ریاست سیلانگر میں شیعوں کے خلاف خطبہ تقسیم کیا گیا جس کے مطابق شیعہ قرآن کے منکر ہیں اور ان کا قرآن الگ ہے۔ نومبر 2013ء میں کوالالمپور اور پتراجیا میں جمعے کے ایک خطبے بعنوان ”شیعہ وائرس“، میں شیعوں کو لواطت کا عادی قرار دیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ ان کی ”زہریلی تعلیمات“ کو روکنا جہاد ہے۔ سامعین کو بتایا گیا کہ انہیں جہاں کوئی شیعہ ملے، حکومت کو اس کی اطلاع دیں تاکہ اس فرقے کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں شیعہ افراد کی متعدد خفیہ ویڈیوز نیٹ پر موجود ہیں جس میں انہیں چھپ کر نماز پڑھتے دکھایا گیا ہے۔

محمد فیصل اور ٹین بینگ ہوئی کے مقالے کے مطابق شیعہ دشمنی کو ہوا دینے کے لیے ذرائع ابلاغ اور میڈیا کا بھی استعمال کیا جاتا ہے جس میں ٹاک شوز، جرائد اور اخبارات کے ذریعے تبلیغ شامل ہے۔ ملک میں پہلے فقط کمیونزم اور پورنوگرافی سے متعلقہ مواد چھاپنے پر پابندی تھی لیکن اب حکومتی ادارے اپنی پسند کے اسلام کو نافذ کرنے کے لیے ہر ایسی تحریر کے چھاپے جانے پر پابندی لگا رہے ہیں جسے وہ غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ فیصل تہرانی کے ناولوں پر پابندی اسی سنسر شپ کا حصہ ہے۔

مذکورہ مقالے کے مطابق ملک میں موجود سنی تنظیمی منجملہ اخوان المسلمون ملائیشیا، پنبینا، اسلامک دعوۃ فاؤنڈیشن آف ملائشیا شیعہ کشی کی اس واردات میں حکومت، شریعہ لابی اور فتوی کونسل کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ اس مقالے میں شیعہ مکتب کے پیروکاروں کی گرفتاری کے بہت سے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کہاں کہاں کون کون سے مقدمات قائم ہوئے ہیں اور کن مقدمات میں شہریوں کو اب تک مشکلات کا سامنا ہے۔ دیگر ویب سائٹس کے مطابق شیعہ افراد کی جبری گمشدگی کا عمل بھی جاری ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .